اسلام میں دیگر اقوام اور
اہل مذاہب کے ساتھ حسن سلوک
از: جناب مولانا شوکت
علی قاسمی بستوی ، استاذ دارالعلوم دیوبند وناظم عمومی
رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلام میں دیگراقوام اور اہل
مذاہب کے حقوق:
یہ پروپیگنڈہ بڑے زوروشور سے کیا
جارہا ہے کہ اسلام اور اس کے ماننے والے دوسرے مذہب والوں کو برداشت کرنے کے
روادار نہیں، یہ ایک گمراہ کن پروپیگنڈہ ہے،اس کا حقیقت
سے کوئی و اسطہ نہیں، یہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی
عالمی سازش کا ایک حصہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام دین
ِرحمت ہے، اس کا دامنِمحبت ورحمت ساری انسانیت کو محیط ہے۔
اسلام نے اپنے پیرو کاروں کوسخت تاکید کی ہے کہ وہ دیگر
اقوام اور اہل مذاہب کے ساتھ مساوات، ہمدردی، غم خواری ورواداری
کا معاملہ کریں، اور اسلامی نظامِ حکومت میں ان کے ساتھ کسی
طرح کی زیادتی، بھید بھاؤ،امتیاز کا برتاؤ نہ کیا
جائے۔ ان کی جان ومال، عزت وآبرو، اموال و جائداد اور انسانی
حقوق کی حفاظت کی جائے۔ ارشاد قرآنی ہے:
لَایَنْہٰکُمُ
اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ
وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ
وَتُقْسِطُوْا اِلَیْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْن
(الممتحنہ:۸)
اللہ تم کو منع نہیں کرتا ان لوگوں
سے جو لڑے نہیں دین کے سلسلہ میں اور نکالا نہیں تم کو
تمہارے گھروں سے کہ ان کے ساتھ کرو بھلائی اور انصاف کا سلوک، بے شک اللہ
چاہتا ہے انصاف والوں کو۔
اس آیت کریمہ کی تفسیرمیں
حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمة الله عليه تحریر فرماتے ہیں
کہ : مکہ میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو آپ مسلمان نہ ہوئے اور
مسلمان ہونے والوں سے ضد اور پرخاش بھی نہیں رکھی نہ دین
کے معاملہ میں ان سے لڑے، نہ ان کو ستانے اورنکالنے میں ظالموں کے
مددگار بنے، اس قسم کے غیر مسلموں کے ساتھ بھلائی اور خوش خلقی
سے پیش آنے کو اسلام نہیں روکتا، جب وہ تمہارے ساتھ نرمی اور
رواداری سے پیش آتے ہیں تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تم بھی
ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور دنیا کو دکھلادو کہ اسلامی اخلاق کا معیار
کس قدر بلند ہے،اسلام کی تعلیم یہ نہیں کہ اگر غیر
مسلموں کی ایک قوم مسلمانوں سے برسرپیکار ہے تو تمام غیرمسلموں
کو بلاتمیز ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا شروع کردیں ایسا
کرنا حکمت وانصاف کے خلاف ہوگا۔(حاشیہ: ترجمہ شیخ الہند:ص:۷۲۹)
دیگر مذاہب والوں کے ساتھ تعاون اور
عدم تعاون کا اسلامی اصول یہی ہے کہ ان کے ساتھ مشترک سماجی
وملکی مسائل ومعاملات میں، جن میں شرعی نقطہ ٴ نظر
سے اشتراک وتعاون کرنے میں کوئی ممانعت نہ ہو ان میں ساتھ دینا
چاہیے۔
دیگر مذاہب یا اقوام کے کچھ
لوگ اگر مسلمانوں سے سخت عداوت اور دشمنی بھی رکھتے ہوں تب بھی
اسلام نے ان کے ساتھ رواداری کی تعلیم دی ہے:ارشاد ربانی
ہے:
اِدْفَعْ
بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَینَہ
عَدَاوَةٌ کَاَنَّہ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ
(سورہٴ فصلت:۲۴)
بدی کا بدلہ نیکی سے دو
پھر جس شخص کے ساتھ تمہاری عداوت ہے وہ تمہارا گرم جوش حامی بن جائے
گا۔
کفار مکہ کے ساتھ حسن سلوک:
وہ
کونسا ظلم تھا جوکفار ومشرکین نے مکہ مکرمہ میں سرکاردوعالم صلى الله
عليه وسلم اور صحابہٴ کرام کے ساتھ روا نہ رکھا۔ آپ صلى الله عليه
وسلم کو جادوگر، شاعر اور کاہن کہاگیا، آپ صلى الله عليه وسلم کو جسمانی
اور ذہنی اذیتیں دی گئیں، آپ صلى الله عليه وسلم پر
پتھروں اور سنگریزوں کی بارش کی گئی، آپ صلى الله عليه
وسلم کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، آپ صلى الله عليه وسلم کا گلا گھونٹا گیا،
نماز کی حالت میں آپ صلى الله عليه وسلم پر اونٹ کی اوجھڑی
رکھ دی گئی، آپ صلى الله عليه وسلم کے قتل کے منصوبے تیار کیے
گئے۔ تین سال تک شعب ابی طالب میں آپ صلى الله عليه وسلم
کومحصور رکھا گیا۔جس میں ببول کے پتے کھاکر گزارہ کرنے کی
نوبت آئی، طائف میں آپ کو سخت اذیت پہنچائی گئی،
لوگوں نے آپ صلى الله عليه وسلم کو گالیاں دیں اور اتنا زدوکوب کیا
کہ آپ صلى الله عليه وسلم کے نعلین مبارک خون سے لبریز ہوگئے۔
آپ صلى الله عليه وسلم کو مکہ مکرمہ سے
ہجرت کرنے پر مجبور کیاگیا۔ آپ صلى الله عليه وسلم مدینہ
تشریف لے گئے تو وہاں بھی سکون واطمینان سے رہنے نہیں دیاگیا۔
اور طرح طرح کی یورشیں جاری رکھی گئیں، یہودیوں
کے ساتھ مل کر رحمت ِ عالم صلى الله عليه
وسلم اور مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بند مہم چھیڑ دی گئی۔
فتح مکہ کے موقع پر کفار مکہ کو موت اپنے سامنے نظر آرہی تھی ان کو
خطرہ تھا کہ آج ان کی ایذا رسانیوں کا انتقام لیا جائے
گا،سرکاردوعالم صلى الله عليه وسلم نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا: اے قریشیو!
تم کو کیا توقع ہے،اس وقت میں تمہارے ساتھ کیا کروں گا؟ انھوں
نے جواب دیا: ہم اچھی ہی امید رکھتے ہیں، آپ کریم
النفس اور شریف بھائی ہیں اور کریم اور شریف بھائی
کے بیٹے ہیں آپ نے ارشاد فرمایا:
”میں تم سے وہی کہتا ہوں جو یوسف
عليه السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا، آج تم پر کوئی الزام نہیں؛
جاؤ تم سب آزاد ہو“(زاد المعارج:۱/۴۲۴)
کیا انسانی تاریخ اس رحم
وکرم کی کوئی مثال پیش کرسکتی ہے؟
یہودیوں کے ساتھ حسن سلوک:
یہودیوں کے مختلف قبائل مدینہ
میں آباد تھے، نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کے مدینہ ہجرت
فرماجانے کے بعد، ابتداءً یہود غیر جانب داراور خاموش رہے لیکن
اس کے بعد وہ اسلام اور نبی رحمت صلى الله عليه وسلم اور مسلمانوں کے تئیں
اپنی عداوت اور معاندانہ رویہ زیادہ دنوں تک نہ چھپا سکے۔
انہوں نے سرکارِ دوعالم صلى الله عليه وسلم اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی
ہر ممکن کوشش کی خفیہ سازشیں کیں، بغاوت کے منصوبے بنائے،
آپ صلى الله عليه وسلم کے کھانے میں زہر ملایا آپ صلى الله عليه وسلم
کو شہید کرنے کی تدبیریں سوچیں، اسلام اور مسلمانوں
کو زَک پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا، اس کی
ایک وجہ یہودیوں میں حسد، تنگ دلی، اورجمود وتعصب
کا پایاجانا تھا۔ دوسرے ان کے عقائد باطلہ، اخلاق رذیلہ اور گندی
سرشت تھی۔ لیکن قربان جائیے رحمت ِ عالم صلى الله عليه
وسلم پر کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کے ساتھ نہایت اعلیٰ
اخلاق کامظاہرہ کیا۔
مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد
سرکارِدوعالم صلى الله عليه وسلم نے یہودیوں کے ساتھ ایک اہم
معاہدہ کیا تاکہ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان خوش گوار
تعلقات قائم ہوں، اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رواداری کا برتاؤ کریں
اور مشکلات میں ایک دوسرے کی مدد کریں، معاہدہ کی
چند دفعات یہ تھیں۔
۱- تمام یہودیوں کو شہریت
کے وہی حقوق حاصل ہوں گے جو اسلام سے پہلے انھیں حاصل تھے۔
۲- مسلمان تمام لوگوں سے دوستانہ برتاؤ رکھیں
گے۔
۳- اگر کوئی
مسلمان کسی یثرب والے کے ہاتھ مارا جائے تو بہ شرط منظوری ورثاء
قاتل سے خوں بہا لیا جائے گا۔
۴- باشندگان مدینہ
میں سے جو شخص کسی سنگین جرم کا مرتکب ہو اس کے اہل وعیال
سے اس کی سزا کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔
۵- موقع پیش
آنے پر یہودی مسلمانوں کی مدد کریں گے، اور مسلمان یہودیوں
کی ۔
۶- حلیفوں میں سے کوئی فریق
اپنے حلیف کے ساتھ دروغ گوئی نہیں کرے گا۔
۷- مظلوموں اور ستم
رسیدہ شخص کی خواہ کسی قوم سے ہو مدد کی جائے گی۔
۸- یہود پر جو
بیرونی دشمن حملہ آور ہوگا تو مسلمانوں پر ان کی امداد لازمی
ہوگی۔
۹- یہود کو
مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔
۱۰- مسلمانوں میں
سے جو شخص ظلم یا زیادتی کرے گا تو مسلمان اسے سزادیں گے۔
۱۱- بنی عوف کے یہود
ی مسلمانوں میں ہی شمار ہوں گے۔
۱۲- یہودیوں
اور مسلمانوں میں جس وقت کوئی قضیہ پیش آئیگا تو اس
کا فیصلہ رسول الله کریں گے۔
۱۳- یہ عہد نامہ
کبھی کسی ظالم یاخاطی کی جانب داری نہیں
کریگا۔ (سیرة ابن ہشام: ص:۵۰۱- تا- ۵۰۴)
آپ نے ملاحظہ فرمایا اس معاہدے میں
کس فیاضی اور انصاف کے ساتھ یہودیوں کو مساویانہ
حقوق دیے گئے ہیں۔
سرکاردوعالم صلى الله عليه وسلم اس معاہدے
کے مطابق یہودیوں کے ساتھ برتاؤ کرتے رہے لیکن یہودیوں
نے اس معاہدے کی پاس داری نہیں کی، مسلمانوں کے خلاف مشرکین
مکہ کی مدد کی اور اسلام اور مسلمانوں کے ہمیشہ درپے آزار رہے۔
عیسائیوں کے ساتھ حسن سلوک:
عیسائیوں کے ساتھ بھی
سرورعالم صلى الله عليه وسلم نے مثالی رواداری برتی۔ مکہ
مکرمہ اور یمن کے درمیان واقع ”نجران“ کا ایک موقر وفد آپ صلى
الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کو
مسجد میں ٹھہرایا انھوں نے سرکاردوعالم صلى الله عليه وسلم کے ساتھ
مذہبی معاملات میں گفتگو کی عیسائیوں کے ساتھ اس
موقع پر ایک تاریخی معاہدہ ہوا، جس میں عیسائیوں
کو مختلف حقوق دینے پر اتفاق کیاگیا ہے۔معاہدہ کی
دفعات درج ذیل ہیں:
(۱) ان کی جان
محفوظ رہے گی۔
( ۲) ا ن کی زمین
جائداد اور مال وغیرہ ان کے قبضے میں رہے گا۔
(۳) ان کے کسی
مذہبی نظام میں تبدیلی نہ کی جائے گی۔
مذہبی عہدے دار اپنے اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے۔
(۴) صلیبیوں
اور عورتوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے گا۔
(۵) ان کی کسی
چیز پر قبضہ نہ کیاجائے گا۔
(۶) ان سے فوجی
خدمت نہ لی جائے گی۔
(۷) اور نہ پیداوار
کا عشر لیا جائے گا۔
(۸) ان کے ملک میں
فوج نہ بھیجی جائے گی۔
(۹) ان کے معاملات اور
مقدمات میں پوراانصاف کیا جائے گا۔
(۱۰) ان پر کسی
قسم کا ظلم نہ ہونے پائے گا۔
(۱۱) سود خواری کی
اجازت نہ ہوگی۔
(۱۲) کوئی ناکردہ
گناہ کسی مجرم کے بدلے میں نہ پکڑا جائے گا۔
(۱۳) اور نہ کوئی
ظالمانہ زحمت دی جائے گی۔ (دین رحمت:۲۳۹، بحوالہ: فتوح
البلدان بلاذری)
مذکورہ بالا جو حقوق اسلام نے دیگر
اقوام اور رعایا کو عطا کیے ہیں ان سے زیادہ حقوق تو کوئی
اپنی حکومت بھی نہیں دے سکتی۔
جو غیر مسلم اسلامی حکومت میں
رہتے ہیں اس کے متعلق اسلامی نقطہ ٴ نظر یہ ہے کہ وہ اللہ
ورسول کی پناہ میں ہیں اسی لیے ان کو ذمی کہا
جاتاہے اسلامی قانون یہ ہے کہ جو غیر مسلم (ذمی) مسلمانوں
کی ذمہ داری میں ہیں ان پر کوئی ظلم ہو تو اس کی
مدافعت مسلمانوں پر ایسی ہی لازم ہے جیسی خود
مسلمانوں پر ظلم ہوتواس کا دفع کرنا ضروری ہے۔ (المبسوط للسرخسی:۱/۸۵)
منافقین کے ساتھ حسن سلوک:
مدینہ منورہ میں ایک
طبقہ ان مفاد پرستوں کا بھی پیدا ہوگیا تھا جو زبان سے ایمان
لے آیا تھا مگر دل ایمان ویقین سے یکسر خالی
تھے، یہ لوگ اسلام کے بڑھتے ہوئے اثر کو دیکھ کر بظاہر مسلمانوں کے
ساتھ ہوگئے تھے، مسلمانوں کے تئیں سخت کینہ، بغض اور حسد رکھتے تھے،
ان کا سربراہ عبداللہ بن ابی ابن سلول تھا، یہ مدینہ کا بااثر
آدمی تھا اور سرکاردوعالم صلى الله عليه وسلم کے مدینہ تشریف
لانے سے پہلے مدینہ کے لوگ اس کو حکمراں بنانے کی تیاری
کررہے تھے۔ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کی ہجرت کے بعد اس کی
آرزو خاک میں مل گئی۔ اپنے کو مسلمان ظاہر کرنے کے باوجود دل سے
کافر ہی رہا، منافقین نے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی تمام
ترکوششیں کیں، نبی رحمت صلى الله عليه وسلم کی شان میں
گستاخیاں کیں، کافروں اور یہودیوں سے مل کر اسلام اور
مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے منصوبے تیار کیے،ان سب شرارتوں اور
عداوتوں کے باوجود سرکاردوعالم صلى الله عليه وسلم اور مسلمانوں نے ان کے ساتھ بھی
حسن اخلاق اور رواداری ہی کا معاملہ فرمایا عبداللہ بن ابی
کی نماز جنازہ بھی سرکار دوعالم صلى الله عليه وسلم نے پڑھائی۔
ان کے لڑکے کی درخواست پر اپنا جبہ مبارکہ اس کے کفن کے لیے مرحمت
فرمایا۔
اسلامی حکومت میں غیر
مسلم رعایا(ذمیوں) کے حقوق:
اسلام تمام افراد بشر اور طبقات انسانی
کے لیے رحمت ورافت کا پیکر بن کر آیا تھا، اس لیے اس نے غیر
مسلم اقوام اور رعایا کے ساتھ مثالی رحم وکرم، مساوات وہمدردی،
اور رواداری کا معاملہ کیا ہے اور ان کو انسانی تاریخ میں
پہلی بار وہ سماجی اور قومی حقوق عطا کیے جو کسی
مذہب یا تمدن والوں نے دوسرے مذہب وتمدن والوں کو کبھی نہیں دیئے۔
جوغیر مسلم اسلامی ریاست میں قیام پذیر ہوں
اسلام نے ان کی جان، مال، عزت وآبرو اور مذہبی آزادی کے تحفظ کی
ضمانت دی ہے۔اور حکمرانوں کو پابند کیا ہے کہ ان کے ساتھ
مسلمانوں کے مساوی سلوک کیا جائے۔ ان غیر مسلم رعایا(ذمیوں)
کے بارے میں اسلامی تصوریہ ہے کہ وہ اللہ اور رسول کی
پناہ میں ہیں۔ا س بناء پر اسلامی قانون ہے کہ جو غیر
مسلم، مسلمانوں کی ذمہ داری میں ہیں ان پر کوئی ظلم
ہوتو اس کی مدافعت مسلمانوں پر ایسی ہی لازم ہے جیسی
خود مسلمانوں پر ظلم ہوتو اس کا دفع کرنا ضروری ہے۔(مبسوط سرخسی:۱/۸۵)
اگر کوئی مسلمان ذمی پرظلم
کرتا ہے تو یہ مسلمان پر ظلم کرنے سے زیادہ سخت ہے ۔(درمختار مع
ردالمحتار:۵/۳۹۶)
جو حقوق مسلمانوں کو حاصل ہیں وہی
حقوق ذمیوں کو بھی حاصل ہوں گے، نیز جو واجبات مسلمانوں پر ہیں
وہی واجبات ذمی پر بھی ہیں۔ ذمیوں کا خون
مسلمانوں کے خون کی طرح محفوظ ہے اور ان کے مال ہمارے مال کی طرح
محفوظ ہے۔(درمختار کتاب الجہاد)
اسلام نے طے کیا ہے کہ جو شخص اس غیرمسلم
کو قتل کرے گا جس سے معاہدہ ہوچکا ہے وہ جنت کی بوسے بھی محروم رہے گا
جب کہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت تک پہنچتی ہے۔(حدیث
شریف:ابن کثیر:۲/۲۸۹)
ذمیوں کے اموال اور املاک کی
حفاظت بھی اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
سرکار دوعالم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد
گرامی ہے: سنو جو کسی معاہد (غیرمسلم) پر ظلم کرے، یا اس
کے حقوق میں کمی کرے گا،یا طاقت سے زیادہ اس کو مکلف کرے
گا یا اس کی کوئی چیز اس کی مرضی کے بغیر
لے گا تو میں قیامت کے دن اس کی طرف سے دعوے دار بنوں گا۔(مشکاة
شریف:ص:۳۵۴)
غیرمسلم رعایا کو اتنی
آزادی حاصل تھی کہ ان کے تعلیمی ادارے آزاد ہوتے اوران کے
شخصی قوانین کے لیے عدالتیں بھی آزاد رہیں۔
ذمیوں کو جو حقوق اسلام میں
عطا کیے گئے ہیں وہ معاہدئہ اہل نجران کے ضمن میں تفصیل
سے بیان کئے جاچکے ہیں۔
مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے والوں کے سلسلہ
میں اسلامی ہدایات:
مکہ مکرمہ میں مسلمانوں پر کفار
مظالم کے پہاڑ توڑرہے تھے،ان کا جینا دوبھر کردیا تھا ہر طرح سے ا ن
کو پریشان کیا جارہا تھا، مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے حبشہ اور پھر مدینہ
منورہ چلے جانے کے بعد بھی سکون میسر نہ آیا، اور کفار یہود
اور منافقین کی مشترکہ سازشوں کا شکارر ہے۔ مدینہ کو تاخت
وتاراج کرنے اور مسلمانوں کو ملیا میٹ کرنے کے ارادے سے ایک
لشکر جرار نے مدینہ پر چڑھائی کردی اس انتہائی مجبوری
کی حالت میں اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہ گیا تھا کہ
تلوار کا مقابلہ تلوار سے کیاجائے چناں چہ اللہ تعالیٰ نے
مسلمانوں کو لڑائی کی اجازت دی اور فرمایا:حکم ہوا ان
لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں،اس واسطہ کہ ان پر ظلم ہوا۔اور اللہ ان
کی مدد کرنے پر قادر ہے وہ لوگ، جن کو نکالاگیا ان کے گھروں سے اور
دعویٰ کچھ نہیں سوائے اس کے،کہ وہ کہتے ہیں ہمارا رب اللہ
ہے۔(سورہ حج:آیت:۳۹)
جہاد کی اجازت ظلم وستم کے مقابلہ کے
لیے دی گئی اور برسرپیکار لوگوں کے سلسلہ میں بے نظیر
رواداری اور حسن اخلاق کی تعلیم بھی دی گئی
جو کسی بھی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی چناں چہ اس
سلسلہ میں ہدایات درج ذیل ہیں:
(۱) جنگ میں خود
پیش قدمی سے روکا(بقرہ:۱۹۱)
(۲) ظلم وزیادتی
کی ممانعت کی (بقرہ:۱۹۰)
(۳) جنگ کی بس
اس وقت تک اجازت دی جب تک فتنہ وفساد فرونہ ہوجائے(حج:۱۳۹)
(۴) دشمن کے قاصدوں کو
امن دیا (ہدایہ ونہایہ:۳/۴۷)
(۵) دشمن کی
عورتوں، بچوں،معذوروں ، کو مارنے سے منع کیا(تاریخ ابن خلدون:۲/۴۸۹)
(۶) سرسبز کھیتوں
اور پھل دار درختوں کے کاٹنے کی ممانعت فرمائی(تاریخ ابن خلدون:۲/۴۸۹)
(۷) عبادت گاہوں کو
ڈھانے اور تارک الدنیا عابدوں اور مذہبی رہنماؤں کو قتل کرنے سے روکا
(ایضاً)
(۸) اسیران جنگ
کو تکلیف پہنچانے کی ممانعت فرمائی۔
(۹) دشمن اپنے کو کم
زور دیکھ کر صلح کی درخواست کرے تو اسے قبول کرنے کی ہدایت
فرمائی۔
(۱۰) پناہ میں
آنے والے غیر مسلم کو امن دینے اور عافیت سے رکھنے کی تاکید
فرئی۔ (سورئہ توبہ:۳۶)
(۱۱) محض مال غنیمت
کے لیے جہاد کرنے سے روکا۔(ابوداؤد:۱/۳۴۸)
(۱۲) لوٹ کے مال کو
حرام قرار دیا۔ (تاریخ ابن خلدون)
(۱۳) معاہدہ کرنے والے
ذمیوں کی جان ومال کی پوری حفاظت کا مسلمانوں کو پابند
فرمایا۔ (دین رحمت:۲۳۹،بحوالہ
فتوح البلدان)
وطن کی محبت اسلام میں:
یہ حقیقت ہے کہ انسان کو دنیا
میں جینے اور زندگی بسر کرنے کے لیے ہمیشہ ہی
غذا کی ضرورت پڑتی ہے انسان کو یہ غذاز مین سے حاصل ہوتی
ہے اور بجا طورپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسان مٹی سے پیدا ہوا
ہے، سورئہ حج میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ہم نے
تم کو مٹی سے پیدا کیا۔ دوسری آیت شریفہ
میں ارشاد فرمایا ہے: ہم نے تم کو زمین میں ٹھہرایا
اور تمہارے لیے زندگی کے سامان زمین سے پیدا کئے(سورئہ
اعراف) دوسری آیت کریمہ میں ارشاد ربانی ہے: تم زمین
میں ہی زندگی بسر کروگے اور زمین میں ہی
مروگے اور زمین میں سے ہی نکالے جاؤگے(سورئہ اعراف) جس زمین
سے آدمی کا خمیر اٹھاہے جہاں وہ پیدا ہوا اور زندگی بسر
کررہاہے اس سے انسان کوفطری لگاؤ اور تعلق ہوتا ہے،اسی لیے عربی
زبان کا مشہور مقولہ ہے: انسان کی پیدائشی سرزمین اس کی
دودھ پلانے والی ماں ہے، مشہور حکیمانہ جملہ ہے :حب الوطن من الایمان:
وطن کی محبت ایمان کا تقاضاہے۔
سرورعالم صلى الله عليه وسلم جب ہجرت
فرماکر مکہ مکرمہ سے جانے لگے تو فرمایا کرتے تھے: اے مکہ توخدا کا شہر ہے
تومجھے کس قدر محبوب ہے،اے کاش تیرے باشندے مجھے نکلنے پر مجبور نہ کرتے تو
میں تجھ کو نہ چھوڑتا۔ (جمع الفوائد:۱/۱۹۵)
جب سرورعالم صلى الله عليه وسلم نے مدینہ
منورہ کو وطن بنالیا تو دعا میں فرمایاکرتے تھے: اے اللہ ہمارے
اندر مدینے کی اتنی محبت پیدا کردے جتنی تونے مکہ کی
محبت دی ہے،مدینے کی آب وہوا درست فرمادے اور ہمارے لیے
مدینے کے صاع اور مد (ناپنے کے پیمانے) میں برکت عطا فرما اور
مدینہ کے بخار کو (حجفہ مقام) کی طرف منتقل فرمادے۔(بخاری
شریف:۱/۵۵۸)
اس حدیث شریف سے وطن عزیز
کی محبت کا بھی بخوبی پتہ چلتا ہے نیز اس کی اقتصادی
ترقی اور آب وہوا کی درستگی اور صحت وعافیت کی بحالی
کی شدید رغبت بھی ظاہرہوئی ہے،اس لیے وطن مالوف کی
محبت فطری تقاضابھی ہے اور شرعی بھی۔
ہندوستان کی فضیلت:
حضرت شیخ الاسلام مولاناحسین
احمد مدنی علیہ الرحمہ، صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند
وصدر جمعیة علماء ہند رقم طراز ہیں:
”اسلامی کتابیں یہ بتاتی
ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام ہندوستان ہی میں اتارے گئے
اور یہاں ہی سکونت کی، اور یہاں ہی سے ان کی
نسل دنیا میں پھیلی اور اسی وجہ سے انسانوں کو آدمی
کہا جاتاہے“۔ (ہمارا ہندوستان اور اسکے فضائل، بحوالہ تفسیر ابن کثیر:۱/۸۰)
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری
محمدطیب صاحب علیہ الرحمہ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند تحریر
فرماتے ہیں:
”ہندوستان نبوت کا دارالخلافہ ہے،یہا
ں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام تشریف لائے حضرت شیث علیہ
السلام دوسرے رسول تھے جو اس سرزمین پر وارد ہوئے ان کی قبر شریف
کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ اجودھیا میں ہے“۔
دارالعلوم دیوبند کے بانی حجة
الاسلام حضرت مولانا محمدقاسم صاحب نانوتوی رحمة الله عليه نے اپنی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ
رام چندر جی اور کرشن جی کے نام ادب سے لیے جائیں اور ان
کے ساتھ گستاخی نہ کی جائے۔ (قومی اتحاد:ص:۷)
حضرت مولانا محمد میاں صاحب رحمہ
اللہ فرماتے ہیں:
( ۱) انسانیت کا
دارالخلافہ ہندوستان ہے۔
(۲) چوں کہ خلیفہ
نبی تھا جس کے پاس حضرت جبرئیل تشریف لایا کرتے تھے لہٰذا
سرزمین ہند سب سے پہلے آفتاب نبوت کا مشرق بنا۔
(۳) اسی سرزمین
پر سب سے پہلے حضرت جبرئیل کا نزول ہوا۔
(۴) ابن سعد نے طبقات
میں نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کے جسم کا خمیر
”وجنی“ نامی علاقے کی خاک سے بنایا ہے۔ لہٰذا
ہندوستان کو یہ شرف حاصل ہے کہ سب سے پہلے نبی … کا خمیر یہیں
کی خاک سے بنایاگیا اور حضرت آدم تمام انسانوں کے ابوالآباء تھے
اس لیے جملہ انبیاء اور تمام انسانوں کے روحانی اور مادّی
اصل واصول کا خمیر ہندوستان ہی سے بنایا گیا، توالد و
تناسل کے اصول پر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جملہ انبیاء ،اولیاء
اور صلحاء کرام علماء ومشائخ کااوّلین عنصر اسی خاک پاک سے وجود پذیر
ہوا۔
حضرت ابن عباس رضى الله تعالى عنه کی
روایت ہے کہ عہد ِ الست ہندوستان کے مقام وجنی میں ہی لیا
گیا۔ اللہ نے تمام انسانوں کی روحوں کو حضرت آدم کی پشت
سے برآمد کرکے ان کو خطاب کیا اور فرمایا کہ کیا میں
تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ تمام روحوں نے متفقہ طورپر اللہ کی
پروردگاری کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ضرور آپ ہی ہمارے پروردگار ہیں۔(ہمارا
ہندوستان اور اس کے فضائل)
وطن عزیز ہندوستان میں
مسلمانوں کے ملکی فرائض:
محدث عصر حضرت علامہ انورشاہ کشمیری
رحمة الله عليه سابق صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند فرماتے ہیں:
”ہندوستان یا کسی دوسرے غیر
مسلم اکثریت والے ملک میں ہر مسلمان اس بات کا ذمہ دار ہے کہ اسلام نے
عام انسانوں کے لیے امن اور آزادی کے جو حقوق تسلیم کیے ہیں
اپنے اختیار اور اپنی طاقت کی حد تک ان حقوق کی حفاظت کرے
ظاہرہے اس مقصد کے تحت ہر مسلمان کو ملک کی سیاسی، معاشی
اور شہری سرگرمیوں میں بقدر طاقت حصہ لینا پڑے گا،تاکہ
اپنے ہاتھ میں سیاسی اور معاشی قوت کے ذریعہ وہ ملک
کے عام باشندوں کی جان ومال اور روٹی کپڑے کے حقوق کی حفاظت کا
اپنے وسائل کی حد تک فرض انجام دے سکے۔ ایک مسلمان اگر محض
تماشائی بن کر زندگی گذارنا چاہے اور ملک کی سیاسی
سرگرمیوں اور معاشی واقتصادی جدوجہد سے کنارہ کش رہے تو وہ خدا
کے عام بندوں کی خدمت کا فرض کیسے ادا کرسکتا ہے۔ (ہندوستان میں
مسلمانوں کے ملکی فرائض)
ہمارے اکابر علماء کرام اور عام مسلمانوں
نے ہمیشہ ملک میں محبت واتحاد، حسن معاشرت ، فرقہ وارانہ یگانگت
اور قومی یک جہتی ورواداری کو فروغ دینے میں
نمایاں کردار ادا کیا ہے شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین
احمد مدنی رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
”ہم باشندگانِ ہندوستان بحیثیت
ہندوستانی ہونے کے، ایک اشتراک رکھتے ہیں، جو کہ اختلاف ِمذاہب
اور اختلاف تہذیب کے ساتھ ہر حال میں باقی رہتا ہے جس طرح ہماری
صورتوں کے اختلافات ذاتوں اور صورتوں کے تباین، رنگتوں اور قامتوں کے
افتراقات سے ہماری مشترکہ انسانیت میں فرق نہیں آتا اسی
طرح ہمارے مذہبی اور تہذیبی اختلافات ہمارے وطنی اشتراک میں
خلل انداز نہیں ہیں، ہم سب وطنی حیثیت سے ہندوستانی
ہیں ۔
لہٰذا وطنی منافع کے حصول اور
مضرتوں کے ازالے کا فکر اور اس کے لیے جدوجہد مسلمانو ں کا بھی اسی
طرح فریضہ ہے جس طرح دوسری ملتوں اور غیرمسلم قوموں کا اس کے لیے
سب کو مل کر پوری طرح کوشش کرنی ازبس ضروری ہے،اگر آگ لگنے کے
وقت تمام گاؤں کے باشندے آگ نہ بجھائیں تو تمام گاؤں برباد ہوجائے گا، اور
سبھی کے لیے زندگی وبال ہو جائے گی۔اسی طرح ایک
ملک کے باشندوں کا فرض ہے خواہ ہندوہوں یا مسلمان ، سکھ ہوں یا پارسی
کہ ملک پر جب کوئی عام مصیبت پڑجائے،تو مشترکہ قوت سے اس کے دور کرنے
کی جدوجہد کریں اشتراک وطن کے فرائض سب پریکساں عائد ہوتے ہیں،مذاہب
کے اختلاف سے اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی، ہر ایک
اپنے مذہب پر پوری طرح قائم رہ کے ایسے فرائض کو انجام دے سکتا ہے، یہی
اشتراک، میونسپل بورڈوں، کونسلوں، اسمبلیوں میں پایاجاتاہے،
اور مختلف المذاہب ممبر فرائض ِشہر یا ضلع یا صوبہ یا ملک کو
انجام دیتے ہیں اور اس کو ضروری سمجھتے ہیں۔ یہی
معنی اس جگہ متحدہ قومیت کے ہیں۔ (ماخوذ ازخطبات فدائے
ملت:ص:۱۶،۲۱۵)
* * *
----------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 06-05 ، جلد: 93 جمادى الاول –
جمادى الثانى 1430 ھ مطابق مئى – جون 2009ء